Monday 6 July 2015

General Workers Jobs In Malaysia

General Workers Jobs In Malaysia

Jobs In Express Newspaper On 06 July, 2015(Monday)


Security Guards Jobs In Uae

Security Guards Jobs In Uae

Jobs In Express Newspaper On 06 July, 2015(Monday)


Welder Fabricator Foreman Jobs In Uae

Welder Fabricator Foreman Jobs In Uae

Express Newspaper On 06 July, 2015(Monday)


Electrician Technician Foreman Driver & Labour Jobs In Saudi Arabia

Electrician Technician Foreman Driver & Labour Jobs In Saudi Arabia

Express Newspaper On 06 July, 2015(Monday)


Sunday 5 July 2015

پير مظهر چوي ٿو




سنڌ جي تعليم کاتي جي تاريخي ڪرپٽ ترين وزير پير مظهر چوي ٿو منهنجي دور ۾ 30 هزار غير قانوني ڀرتيون ڪامورن ڪيون. اهي سڀ ڪامورا تنهنجا چمچا ها جن ڪروڙين روپيا توکي گڏ ڪري ڏنا هاڻي شرم نٿو اچي توکي وٺڻ مهل ٻه هٿ هاڻي وري توبهه توبهه......... چور چور آ پوءِ پير ڇو نه هجي. . استاد لياقت ميراڻي
 

سانس کے ذریعے معدے کے کینسر کی تشخیص کرنے والا آلہ تیار

سانس کے ذریعے معدے کے کینسر کی تشخیص کرنے والا آلہ تیار





لندن: ماہرین نے سانس کے ذریعے معدے کے کینسر کی تشخیص کرنے والا ایسا جدید آلہ تیار کیا ہے جو معدے کے کینسر کی 90 فیصد درست تشخیص کرسکتا ہے۔
برطانوی ماہرین کی جانب سے تیار کیا جانے والا آلہ پیٹ میں کینسرزدہ رسولیوں کی خاص بو کو بھانپتے ہوئے مرض کا پتا چلاتا ہے اوریہ سرطانی اورغیرسرطانی رسولیوں کے درمیان واضح فرق بھی کرسکتا ہے۔ ماہرین نے تجرباتی طورپراسے 200 مریضوں پر آزمایا جن میں سانس کے ذریعے معدے کے کینسر کی تشخیص میں کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
ماہرین کا کہنا ہے روایتی طریقوں سے کینسر کی تشخیص کے لیے کیے جانے والے عمل میں کم ازکم 6 گھنٹے درکار ہوتے ہیں لیکن اس آلے سے معدے اوراس کی نالی میں پائے جانے والے کینسرکو بہت درستگی سے ناپا جاسکتا ہے اور یہ عمل صرف چند منٹوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔اس آلے کے بعد مریض کواینڈواسکوپی کی ضرورت نہیں رہتی اور اس طرح مریض مزید رقم صرف کرنے اور تکلیف دہ اینڈوسکوپی سے بچ جاتا ہے۔
ماہرین کےمطابق پیٹ اور معدے کے کینسر کا عموماً اس وقت پتا چلتا ہے جب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور پوری دنیا میں کینسر سے اموات کی 15 فیصد معدے کے کینسر سے ہی ہوتی ہے۔ ماہرین نے اس ایجاد کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قبل معدے اور آنتوں کے سرطان کے ٹیسٹ تکلیف دہ، وقت طلب اور پیچیدہ تھے لیکن اس ایجاد کےبعد اب یہ عمل آسان ہوجائے گا۔

گوگل نے مریضوں کی صحت کی آگاہی فراہم کرنے والا جدید بینڈ تیار کرلیا

گوگل نے مریضوں کی صحت کی آگاہی فراہم کرنے والا جدید بینڈ تیار کرلیا





سان فرانسسكو: گوگل لیبارٹریزنے حال ہی میں کلائی پر پہننے والے ایسے بینڈ متعارف کرائے ہیں جن کے ذریعے 24 گھنٹے مریض میں صحت کی اہم علامات پر نظر رکھی جاسکے گی اور اس کا ڈیٹا فوری طور پر ڈاکٹروں تک پہنچایا جاسکے گا۔
گوگل کی جانب سے متعارف کرانے والا یہ گھڑی نما آلہ نبض، دل کی دھڑکن، جلد کا درجہ حرارت اورسورج کی روشنی اور شور جیسے بیرونی عوامل بھی نوٹ کرسکتا ہے اس کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹ وہ ڈاکٹروں کو فراہم کرتا رہے گا تاکہ کسی ہنگامی حالت میں ڈاکٹر فوری طور پر کوئی فیصلہ کرسکیں۔
کمپنی کے مطابق اس سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو تحقیق اور کلینکل ٹرائلز (طبی آزمائش) کے لیے استعمال کیا جاسکے گا، دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں مریض ایسے ہیں جنہیں ہر لمحہ طبی نگہداشت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور گوگل کی اس ایجاد کا مقصد بھی ایسے لوگوں کی نگہداشت ہے۔
گوگل کی اس پروڈکٹ کی باقاعدہ آزمائش شروع ہوگئی ہے جب کہ اسے فروخت کرنے کے لیے گوگل کو امریکا اور یورپ کے مجاز اداروں سے اجازت درکار ہوگی۔ گوگل میں لائف سائنسسز سے وابستہ ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے بینڈ کی مدد سے مستقبل میں ہونے والے امراض کی پیش گوئی کرنا بھی ممکن ہوگا اور اس طرح کوئی بھی شخص احتیاط اختیار کرکے اپنی زندگی بہتر بناسکے گا۔

کینسر، ایڈزاورایبولا کی کرشماتی دوا تیارکرلی، شمالی کوریا کا دعوی

کینسر، ایڈزاورایبولا کی کرشماتی دوا تیارکرلی، شمالی کوریا کا دعوی




کینسر، ایڈز،اور ایبولا؛ دور حاضر کے مہلک ترین امراض ہیں۔ مؤخرالذکر دو بیماریاں لاعلاج ہیں جب کہ کینسر بھی تیسرے مرحلے میں لاعلاج ہوجاتا ہے۔
دنیا بھر کے سائنس ان مہلک امراض کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بالآخر اب شمالی کوریا کے سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایسی کرشماتی دوا تیار کرنے میں کام یاب ہوگئے ہیں جو ان تینوں جان لیوا بیماریوں کا علاج ہے!یہ دعویٰ شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی کے توسط سے سامنے آیا ہے۔
شمالی کوریا کے سائنس دانوں نے کینسر، ایڈز اور ایبولا کا توڑکرنے والی دوا کرشماتی دوا تیار کرلی ہے۔ یہ دوا کیمیائی کھاد اور دیگر اجزا کے آمیزے ملی مٹی میں اُگائی گئی جن سنگ نامی جڑی بوٹی سے تیار کی گئی ہے۔ تاہم بہ طور کھاد استعمال کیے جانے والے اجزا کی تفصیل جاری نہیں کی گئی۔ خبررساں ایجنسی کے مطابق حیرت انگیز دوا کو Kumdang-2 کا نام دیا گیا ہے۔ دوا محلول کی شکل میں ہوگی اور اسے انجکشن کے ذریعے متاثرہ مریض کے جسم میں داخل کیا جاسکے گا۔
کورین سینٹرل نیوز ایجنسی کے مطابق سرکاری سائنس داں ڈاکٹر جون سنگ ہو نے دوا کی تیاری کے مراحل کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہا،’’ محققین نے دوا کی تیاری کے لیے نایاب ارضی عناصر ( rare earth elements) کو جن سنگ میں داخل کیا۔ اس مقصد کے لیے ان عناصر پر مشتمل کھاد مٹی میں ملائی گئی جس میں جن سنگ کاشت کی گئی تھی۔ دوا کا انجکشن ان ہی پیچیدہ مرکبات سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ دوا انسانی جسم کے دفاعی نظام کو حیران کُن قوت بخشتی ہے، جس کی وجہ سے جسم مہلک ترین امراض کے خلاف مزاحمت کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔‘‘
شمالی کوریا کی جانب سے Kumdang-2 کی ویب سائٹ بھی بنادی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر دستیاب تفصیلات کے مطابق دوا کا تجربہ افریقا میں ایڈز کے مریضوں پر کیا گیا۔ 56 فی صد مریض دوا کے کرشماتی اثرات کی بہ دولت ایڈز سے مکمل طور پر صحت یاب ہوگئے جب کہ 44 فی صد کی حالت میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی۔
شمالی کورین سائنس داں کے مطابقKumdang-2 کینسر کا بھی شافی علاج ہے، مگر اس ضمن میں انھوں نے مزید کوئی تفصیل فراہم نہیں کی کہ آیا کینسر کے مریضوں پر اس دوا کا تجربہ کیا گیا تھا یا نہیں۔
عالمی سطح پر شمالی کوریا کی جانب سے کیے جانے والے دعوے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا۔ وجہ یہ ہے کہ ماضی میں بھی اس ملک کے آمر حکمرانوں کی جانب سے ناقابل یقین اور مضحکہ خیز دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً یہ کہ شمالی کوریا کے آنجہانی حکمران اور موجودہ آمر کم جون اُن کے والد کم جونگ ال جادوئی طاقتوں کے مالک تھے، اسی لیے انھیں ٹوائلٹ جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ نیز یہ کہ کم جونگ ال کی پیدائش شمالی کوریا کی پہاڑی چوٹی پر ہوئی تھی، اور عین پیدائش کے وقت آسمان پر دہری قوس قزح اور ایک نیا ستارہ نمودار ہوگیا تھا۔ تاہم شمالی کوریا کے ریکارڈ کے مطابق آنجہائی حکمران نے سائبیریا میں جنم لیا تھا۔

دوران ڈرائیونگ وہ غلطیاں جو بڑے حادثات کا سبب بن سکتی ہیں

دوران ڈرائیونگ وہ غلطیاں جو بڑے حادثات کا سبب بن سکتی ہیں







 کراچی: ڈرائیونگ کے دوران ہم اکثر اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن بعض اوقات یہ غلطیاں مہنگی بھی ثابت ہو سکتی ہیں اور کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔
ناتجربہ کاری:
پاکستان میں کم عمر ڈرائیورز کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جن کی نا تجربہ کاری کے باعث بڑے بڑے حادثات رونما ہو جاتے ہیں اور اگر انھیں پولیس اہلکار پکڑ بھی لیں تو وہ پیسے دے کر چھوٹ جاتے ہیں۔
ون ویلنگ اور کرتب دکھانا:
آج کل کے کم عمر نوجوان بڑی بڑی شاہراہوں پر تیز ٹریفک کے دوران ون ویلنگ اور کرتب کرتے دکھائی دیتے ہیں جو جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں اور ایسے حادثات اپنے اکثر اپنے ارد گرد دیکھنے کو ملتے ہیں۔
سگنل توڑنا:
پاکستان جیسے ملک میں سگنل توڑنے کو فخر کی بات سمجھا جاتا ہے اور بہت سے لوگ جلد بازی میں سگنل توڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض اوقات انھیں ایسا کرنا مشکل بھی پڑ جاتا ہے اور یا تو وہ ٹریفک پولیس کے ہاتھوں دھر لئے جاتے ہیں یا پھر اپنا ایکسیڈنٹ کروا بیٹھتے ہیں۔
اوور ٹیکنگ کرنا:
مغربی ممالک میں اپنی لین سے ہٹ کر ڈرائیونگ کرنے پر ڈرائیور حضرات کو بھاری بھرکم جرمانے عائد کرنے پڑتے ہیں لیکن پاکستان میں اوور ٹیکنگ کرتے وقت آگے اور پیچھے والی گاڑیوں کی پرواہ کئے بغیر صرف اپنی سہولت کو دیکھا جاتا ہے جو بعض اوقات بڑے حادثات کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔
اوور اسپیڈنگ:
اوور اسپیڈنگ بھی حادثات کی ایک بڑی وجہ ہے، اسپیڈ چیکنگ پر جرمانہ نہ ہونے کے باعث جلد بازی میں گاڑی ضرورت سے زیادہ تیز چلاتے کی کوشش میں حادثات رونما ہو جاتے ہیں۔
بغیر چین کور اور ہیڈ لائٹ کے گاڑی چلانا:
موٹر سائیکل سوار اکثر چین سے آواز آنے کے بعد چین کور اتار لیتے ہیں اور جب اس پر خواتین سوار ہوتی ہیں تو ان کے دوپٹے یا برقعے چین میں پھنس جاتے ہیں جس کے باعث کوئی بڑا حادثہ بھی پیش آ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑی یا موٹر سائیکل کو ہیڈ لائٹ کے بغیر چلانا بھی کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
چلتی گاڑی سے تھوکنا:
چلتی گاڑی سے تھوکنے یا کسی چیز کے پھینکنے کے حوالے سے یورپین ممالک میں تو سخت قوانین موجود ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے لیکن پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش جیسے ممالک میں جہاں پان اور گٹکے کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے لوگ اپنی جان اور روڈ کی صفائی کی پروا کئے بغیر چلتی گاڑی کا دروازہ کھول کر تھوک باہر پھیکنے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی جان لیوا حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔
ضرورت سے زیادہ مسافر بھٹانا:
جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش میں چنگ چی کو غریبوں کی سواری قرار دیا جاتا ہے لیکن چنگ چی مالکان زیادہ پیسوں کی لالچ میں ضرورت سے زیادہ مسافروں کو بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں جس کے باعث اکثر ہمیں یہ موٹر سائیکل نما گاڑی پیچھے سے کھڑی ہوتی نظر آتی ہے جو پیچھے سے آتی گاڑیوں کے لئے بھی خطرناک ہوتی ہے اور چنگ چی میں بیٹھے مسافروں کے لئے بھی۔
دوران ڈرائیونگ گانے سننا:
بہت سے لوگ ڈرائیونگ کے دوران گانے سننے کے عادی ہیں اور میوزک کے بغیر انھیں ڈرائیونگ کا مزہ ہی نہیں آتا لیکن بعض اوقات ان کی توجہ گانے پر مرکوز ہونے کی وجہ سے کوئی بڑا حادثہ بھی رونما ہو سکتا ہے۔

’ایم کیو ایم کی تنظیمی کمیٹی عسکری ونگ کو منظم کرتی ہے‘

رینجرز کے ترجمان نے کہا کہ گرفتار ہونے والوں کو جلد عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور انھیں تمام قانونی حقوق دیے جارہے ہیں
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ اور نیم فوجی ادارے سندھ رینجرز نے ایک دوسرے پر براہ راست سنگین الزامات لگائے ہیں۔
سندھ رینجرز کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت عسکری ونگ چلاتی ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ رینجرز نے صوبہ سندھ کو مقبوضہ سندھ بنادیا ہے۔
دونوں طرف سے یہ الزامات ایسے وقت سامنے آئے ہیں جبکہ شہر میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گرفتاریوں میں تیزی آئی ہے۔
رینجرز کے ترجمان نے سنیچر کو رات گئے ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ ’ایم کیو ایم کی تنظیمی کمیٹی عسکری ونگ کو منظم کرتی ہے اس لیے اس کے سیکٹر اور یونٹ انچارج گرفتار کیے جا رہے ہیں۔‘
رینجرز کے ترجمان نے کہا کہ گرفتار ہونے والوں کو جلد عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور انھیں تمام قانونی حقوق دیے جا رہے ہیں۔
رینجرز کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ’رینجرز کا آپریشن کسی سیاسی، مذہبی یا لسانی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ گروہوں کے عسکری ونگ اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے۔‘
رینجرز کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتار ہونے والوں میں کچھ لوگ خود بھی گرفتاری دے رہے ہیں۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ کراچی میں امن کے لیے رینجرز اور عوام ساتھ ساتھ ہیں۔
رینجرز کی جانب سے اس سال مارچ میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو اور اس کی آس پاس کی عمارتوں پر چھاپے اور مطلوب ملزمان سمیت درجنوں افراد کی گرفتاری کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ رینجرز کے ترجمان نے ایم کیو ایم پر عسکری ونگ چلانے کا دعویٰ کیا ہے اور اعتراف کیا ہے کہ اسی وجہ سے اس کے تنظیمی عہدیداروں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔
null
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ رینجرز نے صوبہ سندھ کو مقبوضہ سندھ بنادیا ہے
رینجرز کے ترجمان کے بیان پر اتوار کی صبح متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کا ردعمل آیا ہے۔ رابطہ کمیٹی نے ایک بیان میں رینجرز کے ترجمان کے بیان کو انتہائی گمراہ کن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ رینجرز کے ترجمان کابیان اس حقیقت کااعتراف ہے کہ آپریشن صرف اورصرف ایم کیوایم کے خلاف کیاجا رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے ’اب اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا کہ آپریشن کامقصد کراچی سے جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ کرنا نہیں بلکہ ایم کیوایم کوختم کرناہے۔‘
اس سے قبل ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ایک بیان میں کہا کہ سندھ کے شہریوں پر رینجرز غیرآئینی، غیرقانونی اور زمانہ جاہلیت کے ظلم و ستم ڈھا رہی ہے۔ ’ایم کیو ایم کے کارکنوں کے ساتھ جنگی قیدیوں جیسا سلوک کیا جارہا ہے اور رینجرز نے پورے سندھ کو مقبوضہ سندھ بنادیا ہے۔‘
ایم کیو ایم کے ایک اعلامیے کے مطابق الطاف حسین نے رینجرز کی کارروائیوں سے آگاہ کرنے کے لیے سنیچر کو وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو ٹیلی فون بھی کیا مگر ’پہلی کال پر آواز صاف نہیں آ رہی تھی اور قائم علی شاہ اپنی ضعیف العمری کے باعث الفاظ کو صحیح معنوں میں سمجھ نہیں پارہے تھے مگر دوسری بار کال کرنے پر ان کے آپریٹر نے اٹھایا اور اس نے کچھ دیر میں کال کرنے کا وعدہ کیا مگر انھوں نے کال نہیں کی۔‘
ایم کیو ایم کے اعلامیے کے مطابق بعد میں الطاف حسین نے ’پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کو دبئی میں دو فون نمبروں پر کئی بار کال کی مگر وہاں بھی کسی نے فون نہیں اٹھایا۔‘
الطاف حسین نے اپنے بیان میں کہا ’سندھ آگ میں جل رہا ہے لیکن قائم علی شاہ کا غیرذمہ دارانہ رویہ اور آصف علی زرداری کا یہ رویہ انتہائی افسوسناک ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں سندھ دھرتی اور سندھ کے باسیوں سے ذرہ برابر نہ کوئی محبت ہے اور نہ ان کے مستقبل کی فکر ہے۔‘
null
فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کے کارکنان کو رینجرز اور پولیس کی جانب سے بلاجواز گرفتار کرکے ان پر انسانیت سوز تشدد کیا جارہا ہے
ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر فاروق ستار نے سنیچر کو کراچی میں ایک اخباری کانفرنس میں کہا کہ ایم کیو ایم کی سیاسی و فلاحی سرگرمیوں پر غیر اعلانیہ پابندی لگادی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان پروٹیکشن ایکٹ ملک دشمنوں کے خلاف بنایا گیا تھا لیکن بظاہر اسکا استعمال صرف ایم کیو ایم کے خلاف ہو رہا ہے جو ایم کیو ایم پر ظلم ہے اور اس میں ان کے بقول حکومت سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ برابر کے شریک ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ایم کیو ایم کے پاس آخری امید عوام سے رجوع کرناہے ہم اس ظلم و ستم کے خلاف عوام سے رجوع کرکے جلد پر امن احتجاجی مہم کا آغاز کریں گے۔‘
فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم کے کارکنان کو رینجرز اور پولیس کی جانب سے بلاجواز گرفتار کرکے ان پر انسانیت سوز تشدد کیا جارہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کراچی آپریشن میں جو کچھ ہورہا ہے وہ دہشت گردوں، جرائم پیشہ افراد کے خاتمے کے لیے شروع کیا گیا تھا لیکن اس آپریشن کی آڑ میں ایم کیو ایم کی تنظیمی سرگرمیوں کو مفلوج کیا جارہا ہے۔

نه چاهت ، نه محبت نه عشق ۽ نه وري وفا ڪجھ به نه هو ان شخص وٽ سواءِ حُسنَ جي .!!!


نه چاهت ، نه محبت 
نه عشق ۽ نه وري وفا 
ڪجھ به نه هو ان شخص وٽ 
سواءِ حُسنَ جي .!!!



ھوشيار


Friday 19 September 2014

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں *ساحر لددھیانوی*




لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
روح کیا ہوتی ہے اس سے انهیں مطلب ہی نهیں 
وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں
روح مر جائے، تو ہر جسم ہے چلتی ہوئی لاش 
اس حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں
کئی صدیوں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے
کئی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج 
لوگ عورت کی ہر ایک چیخ کو نغمہ سمجھیں
وہ قبیلوں کا زمانہ ہو، کہ شہروں کا سماج
جبر سے نسل بڑهے، ظلم سے تن میل کرے 
یہ عمل ہم میں ہے، بے علم پرندوں میں نہیں
ہم جو انسان کی تہذیب لیے پهرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
*ساحر لددھیانوی*

هي جو قتل ٿيو آ *انور پنجواڻيؔ*




هي جو قتل ٿيو آ
انسان جو موت،
ڪنهن پاپي هٿان
حسرتن جي سسي ڪپي،
ڪوئي زنده رهيو آ
سنڌ جي پيران دا پير،
جيڪي خون جا پياسي
هي ڪنهنجي حسرت هئي،
ڪنهنجو تہ پيار هو۔
*انور پنجواڻيؔ*

معصوم نياڻي سيتا ڀيلڻ سان تشدد بعد مبينا جنسي ڏاڊائي



نهايت دل ڏاريندڙ افسوس ناڪ خبر
اسلام ڪوٽ ويجھو ڳوٺ ڪونڀاريو ۾ هڪ غريب هاري جي 8 سالن جي معصوم نياڻي سيتا ڀيلڻ سان تشدد بعد مبينا جنسي ڏاڊائي جو شرمناڪ واقعو پيش آيو آهي۔ ظالم جنسي ڏاڍائي کان پوءُ معصوم نياڻي کي بيهوشي واري حالت ۾ جھنگل ۾ اڇلائي هليا ويا۔
6 سالن جي وينتي ميگهواڙ ۽ ڪوٽ غلام محمد جي 8 سالن سيتا ڪولهڻ وانگر هن نياڻي کي بہ هتي جي جاگيردارن جي اثر هيٺ قانون تہ انصاف ڪون ڏئي سگھندو پر هنن سڀني مٿان بہ هڪ منصف ويٺل آهي جيڪو ضرور هنن معصومن سان انصاف ڪندو۔


Friday 15 August 2014

کراچی: رفاہِ عام سوسائٹی، ملیر کے ایک 29 برس کے مرد میں ’دماغ کھانے والے امیبا‘ یا نیگلیریا فاؤلری کی تصدیق کے بعد وہ اس کے حالیہ متاثرین میں شامل ہوگئے ہیں ۔



کراچی: رفاہِ عام سوسائٹی، ملیر کے ایک 29 برس کے مرد میں ’دماغ کھانے والے امیبا‘ یا نیگلیریا فاؤلری کی تصدیق کے بعد وہ اس کے حالیہ متاثرین میں شامل ہوگئے ہیں ۔
بدھ کے روز حکام نے بتایا کہ تین مہینوں کے دوران سندھ میں اس ہلاکت خیز وائرس کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سات تک پہنچ گئی ہے۔
حکام کا کہنا تھا کہ عادل نجم کو ہسپتال میں نازک حالت میں لایا گیا تھا، جہاں وہ بدھ کے روز انتقال کرگئے۔
تفصیلات کے مطابق عادل حب ریور روڈ کے ساتھ ایک پٹرول پمپ پر بطور اسسٹنٹ کام کرتے تھے اور ایک علاقے میں اعزازی امام تھے۔
ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کراچی ڈاکٹر ظفر اعجاز نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’وہ اس سال سندھ میں نیگلیریا کے ساتوں شکار تھے۔ اس موذی وائرس سے چھ افراد کی اموات کراچی میں رپورٹ کی گئی ہیں، اور ایک حیدرآباد میں۔‘‘
انہوں نے کہا ’’ہم نے ان کے گھر اور کام کرنے والی جگہوں سے پانی کے نمونے حاصل کرلیے ہیں۔‘‘
اس مہلک امیبا کا سب سے کم عمر شکار ایک نو مہینے کی بچی تھی، جس کی وفات پچھلے مہینے ہوئی۔ اس سے پہلے چار برس کا ایک لڑکا سب سے کم عمر شکار تھا، جس کا انتقال 2012ء میں ہوا تھا۔
نیگلیریا کی وجہ سے اس سال کی پہلی ہلاکت 27 مئی کو گلستانِ جوہر سے رپورٹ ہوئی تھی۔

Thursday 14 August 2014

ڪراچي جي سنڌي وسندين لاءِ ناسور بڻيل، ڏوهارين خلاف ڀٽائي آباد جي رهواسين جو مظاهرو



ڪراچي (رپورٽر ) ڪراچي ۾ ڀٽائي آباد جي رهواسين جو بااثر ڏوهاري ماڻهن خلاف احتجاجي مظاهرو، پريس ڪلب ڪراچي آڏو احتجاج جي اڳواڻي ڪندڙ جاني جوکئي ۽ سڪندر چانڊيي چيو ته ڀٽائي آباد، بختاور ڳوٺ، ڌڻي بخش ڳوٺ ۽ راشدي ڳوٺ تي بااثر ڏوهاري مگسي گروپ جو قبضو آهي،  جيڪي هر گهر ۽ دڪان تان ڀتو وصول ڪن ٿا، هنن چيو ته بااثر جو هڪ هٿياربند فورس آهي جيڪو رات جو پهرو ڏيڻ بهاني سان گهرن ۽ دڪان مان ڦر ڪري ۽ انهن خلاف جيڪڏهن ڪو آواز اٿاري ٿو ته ان کي قتل ڪيو وڃي ٿو، هنن مطالبو ڪيو ته بااثر گروپ جي اڳواڻن قربان مگسي، خادم ۽ صبر مگسي خلاف قانوني ڪارروائي ڪري تحفظ فراهم ڪيو وڃي.

جيڪب آباد جا مسئلا ڪير حل ڪرائيندو؟



محترم اعجاز جکراڻي صاحب اوهان گذريل ڏهن سالن کان وزير هئڻ باوجود شهر کي هيل تائين ڪجهه ناهي ڏنو. نه ئي ڪا پلاننگ مرتب ڪئي آهي. جيڪب آباد شهر ۾ هڪ عام تاثر ماڻهن جي ذهنن ۾ ويٺل آهي ته جيڪب شهر هڪ قطعي عددي اڪثريت جکراڻين جي هئڻ ڪري جکراڻين جو شهر سڏيو وڃي ٿو پر انهي باوجود پاڻي صاف ۽ مٺو نه هئڻ ڪري، ٻار پوڙها ۽ عورتون به پيئڻ جي صاف مٺي پاڻي لاءِ پريشان آهن. ان کان پوءِ شهر جي ورڊن تي نظر وجهون ٿا ته شهر جا مُکُ روڊ ڪوئيٽا روڊ ڪيترن سالن کان کنڊر بڻيل آهي. ٻئي پاسي ميان محمد سومري جي نالي سان ٺهندڙ لائبريري جنهن جو نالو تبديل ٿي هاڻي شهيد بينظير لائبريري رکيل آهي. ان جي اندر به ڪنهن قسم جي سهوليت مسير ناهي. جيڪب آباد ۾ هڪ شهباز ايئر بيس آهي جيڪو هن وقت شهر جي ايراضي کان ٻيڻ تي وڏو ايئر بيس پورٽ آهي جيڪو پاڪستان جي وڏي ائيرپورٽ جي نالي سان رٿا جوڙي پئي وڃي. جنهن جي وڏي ٿيڻ سان ۽ ان ۾ لهندڙ جنگي جهازن جي  اڏامڻ سان شهر جي ويجهي پسگردائي  ۾ رهندڙ عوام، ٻارڙا، ڳورهارين عورتن، بيمار پيلن مريضن کي خاص ڪري دماغي بيمارين ۽ ذهني شاڪ جو نقصان ٿيڻ جو امڪاني خدشو پڻ لاحق آهي ۽ هن وقت شهر ۾ بجلي جو بحران چوٽ چڙهيل آهي لوڊشيڊنگ روز 14-12 ڪلاڪن تائين رهندي آهي، جنهن سبب ڪاروباري مرڪز کي به وڏو ڌڪ رسي پيو. وري مٿان شهر ۾ ڪو به آفيسر T.M طور مقرر ٿيڻ لاءِ تيار ناهي. انهن سڀني مسئلن کي حل ڪرڻ جي گهرج آهي. اعجاز جکراڻي صاحب پاڻ عملي طور انهن مڙني مسئلن لاءِ سنجيدگي اختيار ڪري پاڻمرادو تحرڪ وٺي عوام جي اميدن تي پورو لهي ڏيکاريو،

دادو جي سلميٰ ملاح سان انصاف ڪير ڪندو…..؟ – مقصود چانڊيو/ دادو





دادو شهر جي ملاح چوڪ جي رهواسڻ سلميٰ ملاح جو 18 مهينن جو کيرپياڪ ٻار زيب ملاح بااثر سهري ۽ سندس مڙس وٽ گذريل ڪيترن ئي مهينن وٽ قبضي ۾ آهي جنهن سبب ماءُ جي ممتاز ڏينهن توڙي رات تڙپندي گذري ٿي معصوم پٽ جي بازيابي لاءِ 7 مئي ته متاثر ناري سلميٰ ملاح پنهنجي پئ جمن ملاح، ڀاءُ سليم ملاح سميت پنهنجي ڀيڻن، ڀائرن ۽ عزيزن سان گڏجي ڪجهه مهينا اڳ دادو شهر جي ايس ايس پي چوڪ انڊس هائي وي تي ڌرڻو هنيو جنهن تي دادو پوليس حرڪت ۾ آئي ۽ ٻارڙي جو معاملو عدالت تائين پهتو جنهن بعد عدالت پوري جانچ پڙتال بعد سلميٰ جي مڙس ۽ سهري کي حڪم ڏنو ته 18 مهينن جو کيرپياڪ ٻاڙ کيس ماءُ کي ڏنو وڃي پر دادو  پوليس عدالتي حڪمن کي ٿڏي معاملي کي لئي مٽ ڪندي ماءُ کي يقين ڏياريو ته جلد ئي ٻار کي بازياب ڪرايو ويندو پر اهو صرف اعلان ئي رهيو، ماءُ جي مجبور ممتا نيٺ ٻيهر پنهنجي معصوم پٽ جي بازيابي لاءِ 3 جون 2014 تي سوين ملاح برادري جي مردن ۽ عورتن سميت ايس ايس پي چوڪ انڊس هاءِ وي تي ٽينٽ هڻي ٽائرن کي باهيون ڏئي ايندڙ ويندڙ ٽريفڪ کي روڪي پر امن احتجاج ڪري ڌرڻو هنيو جيڪو ڌرڻو ٽچڪندڙ گرمي ۾ به 20 ڪلاڪن تائين جاري رهيو ۽ ان دوران ڪيترائي ڀيرا دادو پوليس پاران ساڳيائي آسرا ڏيڻ لاءِ پهچي ڳالهيون ڪيون پر مظاهرين هڪ به نه ٻڌي ۽ اهوئي جواب ڏنو ته ٻارڙو اڄ ئي بازياب ڪرائي انصاف ڪيو وڃي پر دادو متاثرين کي انصاف ڏيارڻ بجاءِ صبح جي سوير آذان وقت ميڊيا ۽ ماڻهن جي غيرموجودگي ۾ موقعي جو فائدو وٺندي 8 ٿاڻن جي پوليس، بڪتر بند گاڏي ساڻ ڪري متاثرين جي پرامن احتجاج تي 22 ڪلاڪ بعد شيلنگ، لاٺي چارج هوائي فائرنگ ڪري مظاهرين پاران پوليس جون ڳالهيون نه مڃڻ تان پوليس ان ايس ايس پي چوڪ کي دادو جنگ جو ميدان بڻائي ڇڏيو، پوليس جي ائين بي لغان ۽ هٿ ڇوٽ لٺبازي، شيلنگ ۽ فائرنگ تي مظاهرين  به ڏمرجي پيا ۽ پوليس مٿان سروٽن جا وسڪارا شروع ڪيا ۽ بڪتر بند گاڏين کي پڻ سروٽا هنيا، پوليس جي بي رحماڻا تشدد ۾ 7 عورت مسمات سلميٰ، فوزيا، فرزانه، سڪينه، سميت 20 کان وڌيڪ مرد، محمد جمن ملاح، اڪبر ملاح، سليم ملاح، حاجي خان ۽ ٻيا رتو رت ٿي ويا جن کي پوليس علاج لاءِ سول اسپتال دادو پهچائڻ بجاءِ عورتن ۽ مردن کي جانورن جيان وارن ۽ ڄنگهين مان پڪڙي سخت مارڪٽ جو نشانو ڪندي کين پوليس موبائيل ۾ وجهي دادو ٿاڻي جي ڪمري ۾ بند ڪري ڇڏيو جتي متاثر عورتون پوليس کي پٽون ۽ پاراتا ڏينديون رهيون جڏهن ته ٿاڻي تي پوليس متاثرن کي سخت گرمي هئڻ باوجود به پاڻي جو ڦڙو به نه ڏنو جنهن سبب ٿاڻي جي ڪمري بند پيل عورتن مان 2 عورتون مسمات سلميٰ ۽ سڪينه ملاح بيهوش ٿي ويون جن کي پڻ پوليس پرائيوٽ ڊاڪٽر کي اسپتال گهرائي ۽ انجيڪشن ڏني، جڏهن ته پوليس بااثرن ايوب ملاح ۽ سندس ساٿارين خلاف ڪارروائي ڪرڻ بجاءِ انهن کان رشوت طلب ڪري ملاح برادري سان لاڳاپيل ماڻهن جي گهرن ۽ اوطاقن تي ٻيهر پوليس اٽالا ساڻ ڪري چڙهائي ڪئي ۽ ڪيترائي ملاح گرفتار پڻ ڪيا، واقعي جي رپورٽ طلب ڪندي آ۽ جي سنڌ جي حڪمن تي ڊي آ۽ جي حيدرآباد ايس ايڇ او دادو اڪبر پنهور سميت 10 پوليس اهلڪارن کي معطل پڻ ڪيو پر ايس ايڇ او دادو اڪبر پنهور آءِ جي سنڌ جي حڪمن کي ٿڏي ساڳئي ڪرسي تي اي سيڪشن ٿاڻي تي موجود آهي ۽ ڌرڻي دوران گرفتار ڪيل 10 ڄڻن مٿان دهشتگردي ۽ امن امان کي خراب ڪرڻ جا ٻه ٻه ڪيس داخل ڪيا ويا جن کي ٻئي ڏينهن نوشهروفيروز جي اي ٽي سي ڪورٽ ۾ آندو ويو جتي مظاهرين کي عدالت آزاد ڪرڻ جو حڪم ڏنو. دادو پوليس مظاهرين کي موري ۾ جانورن جيان ڦٽو ڪري دادو موٽي آئي، جڏهن ته  دادو پوليس جي اهڙي رويي تي نه صرف دادو واسين جي دل آزاري ٿي آهي پر پوليس کي به سٺي نظر سان نٿو ڏٺو وڃي ۽ سياسي سماجي مذهبي تنظيمن سميت شهرين پڻ واقعي جي ڪيترائي ڀيرا سخت لفظن ۾ مذمت ڪئي آهي، جڏهن ته دادو جي مقامي عدالت پاران ايس ايڇ او دادو اڪبر پنهور سميت 10 پوليس اهلڪارن کي معطل ڪرڻ باوجود به مذڪوره ايس ايڇ او پاران ڊيوٽي ڪرڻ خلاف متاثرن سخت احتجاج پڻ ڪيا آهن پر تنهن باوجود به اعليٰ اختيارين جي ڪن تي جون به نه چري آهي، متاثر ناري سلميٰ ملاح ٻڌايو آهي ته ٻارڙو به اسانجو اغوا ڪيو ويو ۽ پوليس اسانکي جانورن جيان تشدد جو نشانو بڻايو انصاف ڪرڻ بجاءِ پوليس ظلم ڪيو ۽ بابا سميت 20 ڄڻن کي رتو رت ڪيو جنهن مان ثابت ٿئي ٿو ته دادو پوليس صرف رشوت خوري ۾ پوري آهي.

ڏڪار جو مستقل حل..!!





گذريل ٻن هفتن کان ڏيهي توڙي پرڏيهي ميڊيا جا نمائندا پاپازاري ڪئمرامين ۽ فوٽو گرافر ڊي ايس ايل لائيو گاڏين ساڻ ٿر ۾ لٿل آهن، ملڪ جا اقتدار ڌڻي ۽ زورآور ڪامورا پڻ ٿر ياترا ڪري رهيا آهن، پر رڪارڊ جي درستگي لاءِ اهو لکڻ ضروري آهي ته مٿيان سڀئي همراهه ٿر تڏهن پهتا آهن، جڏهن ارنرو کان اڏاڻي ۽ ڪاسبو کان ڪيرٽي تائين هڪ سئو سٺ (160) کان وڌيڪ معصوم ٻاررن جي موت جا تڏا وڇائجي چُڪا آهن ۽ مارئي جي ملڪ ۾ سوڳوار فضا ڇانيل آهن.
اهڙي ڀيانڪ صورتحال دوران به سنڌ جي وڏي وزير سيد قائم علي شاهه کي ان ڳالهه تي اعتراض آهي ته ٿري عورتن ان سان گفتو گهونگهٽ ۾ ڪئي ۽ جڏهن وزير اعظم نواز شريف پهتو ته انهن گهونگهٽ هٽائي ڳالهه ٻولهه ڪئي! ٿر جو ڏڪار اصل محبتون ڪهڙيون کڻي ايندو آهي، ڏڪار دوران ڪهڙا ڪلوڙ ٿيندا آهن ۽ ان مسئلي جو مستقل حل ڪهڙو هجڻ گهرجي، اچو ته پاڻ ٿورڙو ان انتهائي اهم ۽ سنجيده مسئلي تي سوچيون ۽ ڪنهن نتيجي تي پهچڻ جي ڪوشش ڪريون.
هاڻ جيڪڏهن ذميوارين ۽ انجي مستقل حل طرف اچون ته ٿورڙو ملڪ جي سياسي سماجي حالتن جي دنيا ۾ ايندڙ تيز تبديلين طرف به نظر ڊوڙائڻي پوندي. پاڪستان جي سڀ کان وڏي ريگستاني صحرا ٿر جي سرحدي پٽي تي ڀرسان ئي پاڙيسري ملڪ ڀارت جو ٿر موجود آهي. موسمون، ماڻهو، ٻولي، ڪلچر ۽ سڀ ڪجهه هڪجهڙا ئي ملندي. پوءِ اتي هر سال ايئن بي يارو مددگار ٿي ماڻهو ڇو نٿا مرن. اوهان کي اهو ٻڌي ۽ پڙهي حيرانگي وٺي ويندي ته ڀارت جي ٿر ۾ اتان جي حڪومتي سهڪار سان ماڻهو گگرال جي فصل طور ساليانو پوکي ڪن ٿا ۽ ڪروڙين رپيا گگرال جي فصل مان ناڻو ڪمائين ٿا. اسان جي ٿر ۾ گگرال جي وڻ کي زهريلي ”ڪار بوليڪ ائسڊ“ نالي ڪيميڪل سان ٽُڪو هڻي ان جو نسل ئي ختم ڪيو پيو وڃي. مشرف دور کان وٺي هيل تائين ٿر ۾ کارو پاڻي مٺو ڪرڻ جا سوين آراو پلانٽ لڳايا ويا. هڪ پلانٽ تي هڪ ڪروڙ جي لاڳت ڏيکاري وئي، حالت اها آهي جو نجي ڪمپني جي نااهل ڪامورن ۽ مقامي پٽيلن ۽ سماجي جمعدارن جي ملي ڀڳت سان ان پلانت کي هلائڻ لاءِ جنريٽر خاطر ملندڙ تيل کي وڪرو ڪيو وڃي ٿو. اهي پلانت غلط پلاننگ ۽ فني مهارت جي ابتڙ لڳايا ويا، جنهن سبب ملڪ جو اربين رپين جو ناڻو تباهه ٿي ويو ۽ فائدو به نه مليو.
ارباب دور ۾ مليل وزيراعظم ٿر پئڪيج جا 12 ارب رپيا به رفو چڪر ڪيا ويا. ڪميونٽي سينٽرن جي آڙ ۾ وڏيرن ۽ ٿر جي پٽيلن اوطاقون ۽ ذاتي بنگلا تعمير ڪرايا. ٿر ۾ هڪ به گائينوڪلاجسٽ، چائلڊ اسپيشلسٽ مقرر نه ڪيو ويو. ويم گهر موجود ناهن. کاڌو نه ملڻ سبب ٻارڙا جڏهن موت جي منهن ۾ وڃي رهيا هئا، تڏهن ٿر ۾ وڏي وزير جي ٽيم وزيرن، مشيرن جي خوشامد لاءِ 40 طعام تيار ڪيا ويا هئا. ملاڻي جي محلات ۽ موتي محل ۾ سينڊ وچ تيار پي ڪيا ويا ۽ ارباب صاحب جي کيت لاري، ڍوڍاوري ۽ ڇهون واٽر تي پهتل مهمانن لاءِ منزل واٽر ۽ شگر فري ڪولڊ ڊرنڪ کڄي پي ويا ۽ گل لاٽ صاحب پنهنجي ڪاروباري اسٽاڪ ايڪسچينج جي لاهن چاڙهن جا حساب ڪتاب ڪري رهيو هو. سول سوسائٽي جا نام نهاد اڳواڻ ۽ اين جي اوز جو طلسماتي لبادو اوڍي ٿر پهتل عالمي ڊونرن جا ڀاڙيتو ايجنٽ ليپ ٽاپس ذريعي ڊيٽاگڏ ڪري رهيا هئا ۽ ”تڏن“ ڪمرن ۾ ويهي نوان پراجيڪٽ لانچ ڪرڻ لاءِ حرفتي لڪيرن وارا سائنسي گراف تيار ڪري نيري، سائي، پيلي ۽ ڳاڙهي رنگ جا نشان ڏئي رهيا هئا. ٺيڪ اهڙين دل ڌوڏيندڙ حالتن ۾ به نيمٻراج ڀيل کان وٺي پاروتي ڪولهڻ تائين سوين معصوم ٻارڙن جي لاشن کي ٿر واسي مائٽ پويتر ڌرتي جي آغوش ۾ لڪائي دفنائي رهيا آهن ۽ عالم اختيار کي ٽڪي جو به الڪو نه ٿيو، پر حيرت ان تي آهي جو اقتدار ڌڻي ۽ ٿرين جي ووٽ تي هنڀوڇيون هڻندڙ وڏيرا امداد جي ورهاست واري پٽيلي چڱ مڙسي لاءِ فوٽ پٽيون کڻي ڊگهي مدت تائين مال ڪمائڻ جا ماڻ ماپا طئي ڪرڻ جي چڪر ۾ رُڌل هيا.
ضرورت ان ڳالهه جي آهي جو انهي ڏڪار ۽ قدرتي آفتن کي منهن ڏيڻ لاءِ مستقل بنيادن تي ڪا ديرپا پلاننگ ڪئي وڃي. ٿر واسين کي انهيءَ امدادي خيرات واري ڪلچر ۾ ڌڪڻ بجاءِ انهن جي هميشه لاءِ انهن محبتن مان ڇوٽڪاري لاءِ صحت، تعليم، روزگار جي وسيلن ۽ موجودگي لاءِ ڪي مستقل ڪوششون ٿيڻ کپن ۽ انهن سان ماٽيلي ماءُ وارو سلوڪ ڪرڻ بجاءِ پنهنجو سمجهي انهن کي به ڊفينس، بليو ايريا ۽ ٻين علائقن ۾ موجود سهولتن جهڙيون حالتون مهيا ڪري ڏنيون وڃن ۽ مالڪي توڙي وارثي نه ڪندڙ ڪامورن توڙي سياستدانن کان سيٽون ۽ ڪرسيون کسي ڪنهن مسڪين جهان خان کوسي جهڙي انسان کي اڳتي آندو وڃي پوءِ ڏسو ته تبديلي اچي ٿي يا ڪونه ٿي اچي. باقي رڳو فوٽو سيشن جو هيراڪ بڻجي پنهنجن جي ڦٽن تي لوڻ ٻُرڪڻ جو اهو سلسلو جاري رکيو ويو ته تاريخ اهڙن حڪمرانن توڙي ڪامورن کي مير جعفر ۽ مير صادق جهڙن غدارن جي لسٽ ۾ شامل ڪندي ۽ چون ٿا ته تاريخ ڏاڍو بي رحم هوندي آهي، اها ڪنهن جو پورهيو جتي ضايع نه ڪندي آهي اُتي ساڳئي وقت اڇا ڪارا پڌرا ڪرڻ جو ڪم به ڪندي آهي.
الياس ٿري



Wednesday 13 August 2014

سنڌي سميت ملڪ جي مڙني ٻولين کي قومي ٻولين جو درجو ڏنو وڃي: اديب ۽ دانشور



حيدرآباد(رپورٽ: فهميده جروار) سنڌيءَ سميت پاڪستان جي سمورين ٻولين کي قومي ٻولي جو درجو ڏئي انهن جي ترقي ۽ واڌاري لاءِ اپاءَ ورتا وڃن، خانگي اسڪولن ۾ سنڌي ٻوليءَ جي لازمي تدريس جي سلسلي ۾ سنڌي لئنگويج اٿارٽي کي وڌيڪ بااختيار بڻائي، خانگي اسڪولن جي رجسٽريشن کي تعليم کاتي ۽ اٿارٽي جي سفارشن سان مشروط ڪيو وڃي، دفترن ۾ سنڌي ٻولي جي استعمال کي يقيني لاءِ سرڪاري سطح تي اپاءَ ورتا وڃن، اسيمبليءَ کان وٺي ضلعي حڪومتن جي هيٺين پرتن تائين سنڌيءَ جو استعمال ڪيو وڃي. سنڌ اسيمبلي ۾ سنڌي ۾ ڪارروائي هلائي وڃي، سنڌي ٻولي جي ذريعي تعليم واري حيثيت پهرين ڪلاس کان بحال رکي وڃي، شاهه لطيف جي شاعريءَ جا پنجابي، بلوچي، سرائيڪي، براهوي، پشتو ۽ ٻين ٻولين ۾ منظوم ترجمان ڪرايا وڃن ۽ انهن ٻولين جي عظيم شاعرن جي ڪلام جا سنڌي ٻولي ۾ منظوم ترجمان ڪرايا وڃن. سنڌ جي نوجوان محققن کي لسانيات جي جديد تعليم ڏيارڻ لاءِ سنڌ حڪومت اسڪالر شپن جو اعلان ڪري. اردو يونيورسٽي وانگر سنڌي يونيورسٽي قائم ڪئي وڃي، سمورين موبائل ڪمپنين، دوائن جي ڪمپنين، مشروبات جي ڪمپنين کي سرڪاري طرح پابند ڪيو وڃي ته پنهنجا ليبل سنڌي ۾ شايع ڪن، اهڙي گهر سنڌ جي ليکڪن، اديبن، شاعرن، شاگردن، صحافين، سياسي سماجي ۽ سول سوسائٽي جي اڳواڻن ڪالهه ثقافت جي عالمگيريت ۽ مادري ٻولي جي اهميت جي حوالي سان سافڪو پاران ڪوٺايل ليڪچر پروگرام ۾ ڪئي، سافڪو آفيس ۾ ليڪچر ڏيندي ڊاڪٽر فهميده حسين چيو ته گلوبلائيزيشن به ڪالونائيزيشن آهي، گلوبلائيزيشن سبب ڪيتريون ئي ٻوليون خطري ۾ آهن، هن چيو ته 17 سئو ٻوليون آهن ۽ ٻولي هڪ ٻئي سان اظهار جي ذريعي سميت سڃاڻپ پڻ آهي. ڀارت ۾ رياستي ٻوليون محفوظ آهن ۽ سنڌ ۾ تعليم بي اثرائتي آهي. چئن ٻولين کي قومي ٻولي قرار ڏنو وڃي ۽ اردو کي رابطي جي ٻولي قرار ڏنو وڃي، 67 سال گذرڻ باوجود ٻاهران آيل ماڻهو سنڌي نه سکي سگهيا آهن، هن چيو ته ڌاري ٻولي مقامي ٻولين کي نقصان ڏئي ٿي، اردو ٻولي لساني جبر پئي ڪري، ڏکڻ ايشيا ۾ انگريزي کي رابطي جي ٻولي چيو پيو وڃي، اردو ۽ انگريزي پاران سنڌي ٻولي تي وڏو جبر آهي ۽ انهيءَ سبب ٻولي ۾ بگاڙ پيدا ٿئي ٿو. ان موقعي تي جامي چانڊيو ڳالهائيندي چيو ته ميڊيا ۽ اين جي اوز ٻولين ۾ بگاڙ پيدا ڪيو آهي، جنهن تي سڀني سنڌ واسين کي ڌيان ڏيڻ گهرجي.ان موقعي تي سافڪو جي اڳواڻ سليمان جي ابڙو ڳالهائيندي چيو ته سنڌي ٻولي جو بچاءَ ۽ بقا پرائمري تعليم ۾ آهي، اسان سنڌي ٻولي بچائڻ لاءِ پرائمري تعليم کي سگهارو ڪيون اهو اسان جو فرض آهي. اسان کي گهرجي ته ماضي جيان بحث ۽ مباحثن ذريعي سنڌي ٻولي کي بچائڻ لاءِ جدوجهد ڪيون،. ان موقعي تي سماجي اڳواڻ ذوالفقار هاليپوٽو، ايڇ آر سي پي جي ڊاڪٽر اشو ٿاما، روزاني سنڌ جي ايڊيٽر جعفر ميمڻ، عوامي جمهوري پارٽي جي مختيار عباسي ۽ ٻين پڻ ڳالهايو، جڏهن ته روزاني سنڌ جي چيف ايڊيٽر مهيش ڪمار، سماجي اڳواڻ پنهل ساريو، ايس پي او جي ريجنل مئنيجر مصطفيٰ بلوچ، هينڊز جي اڳواڻ رزاق عمراڻي، پي ايف ايف جي سهيل صديقي ۽ ٻين پڻ شرڪت ڪئي.

جيڪڏهن سنڌي ٻولي کي بچائڻو آهي ته ان کي ڪمپيوٽر جي ٻولي بڻائڻو پوندو.




حيدرآباد (اسٽاف رپورٽر) سنڌي ٻولي اختياري پاران مادري ڏينهن جي موقعي تي ٻولي سيمنار ڪيو ويو. انهي موقعي تي ٻولي اختياري جي اڳوڻي چئرمين ڊاڪٽر غلام علي الانا چيو ته سنڌي کي جيڪڏنهن بچائڻو آهي ته ان ٻولي ڪمپيوٽر جي ٻولي بڻائڻو پوندو. هن چيو ته جيستائين ڪا ٻولي مارڪيٽ جون گهرجون پوريون نه ڪري سگهندي تيستائين اها ٻولي زندهه نه ٿي رهي سگهي. ان ڪري سنڌي ٻولي کي مارڪيٽ جي ٻولي بنائڻ لا ٻولي کي ڪمپيوٽر جي ٻولي بڻائڻ گهرجي. هن سنڌي ٻولي جي بااختيار اداري تي تنقيد ڪندي چيو ته هي ادارو رڳو نالي ۾ باختيار آهي باقي هون  هي ادارو بلڪل بي اختيار ادارو آهي.هن سنڌ ٽيڪسٽ بوڪ بورڊ تي پڻ تنقيد ڪئي ۽ چيو ته ان اداري ۾ نصاب جوڙڻ لا جن ڄاڻو ماڻهن کي رکڻ جي ضرورت آهي اهي نٿا رکيا وڃن.هن چيو ته جيڪا شي هڪ دفعو هٿن مان نڪريو وڃي ٿي ته اها وري هٿ ۾ نٿي اچي.هن مثال ڏيندي چيو ته قائد اعظم جهرڪن ۾ ڄائو پر هاڻ ان ڳالهه کي ڪير به مڃڻ لا تيار ناهي ۽ اها اهم ڳالهه اسان پنهنجي هٿن مان ڪڍي ضايع ڪري ڇڏي.هن چيو ته سنڌ جي پڙهيل لکيل ماڻهن ۾ سنڌي ڳالهائڻ جو رجهان وڏي تيزي سان گهٽجي رهيو آهي . هن مثال ڏيندي چيو ته قاسم آباد ۾رهندڙ60 سيڪڙو سنڌي آبادي پنهنجي گهرن ۾ به اردو ٻولي ڳالهائڻ لڳا آهن.هنچيو ته سنڌي ٻولي جو هر لهجو اهم آهي. ان ڪري لکڻ پڙهڻ ۽ پبلشرن کي ٻولي جي هر لهجي ۽ ان جي اچار کي مان ڏيڻ  گهرجي.دانشور جامي چانڊيو ڳالهائيندي چيو ته 18 ترميم کان پو سنڌ اسيمبلي کي پنهنجي سنڌي ٻولي کي قومي ٻولي جو درجو ڏيڻ وارو قانون اختيار آهي. جنهن کي هر صورت ۾ استعمال ڪرڻ گهرجي.هن چيو ته مادري ٻولي ۾هر  ٻار کي پڙهڻ جو حق آهي جيڪو ٻارن کي ملڻ گهرجي.هن چيو ته سنڌي سماج ۾ شهرن جي بدران ڳوٺن ۾نج سنڌي ٻولي ڳالهائي وڃي ٿي.جڏنهن ته ان جي مقابلي ۾ شهرن ۾ نجي اسڪولن جا استاد ۽انهن جا هيڊ سنڌي ۾ ڳالهائڻ ۾ به شرم محسوس ڪن ٿا.پروگرام۾ مئڊم سحر امداد ڳالهائيندي چيو ته سنڌي ٻولي سان ميڊيا، شاعرن ۽ اديبن وڏو قهر ڪيو آهي ۽ ٻولي کي لاڳيتو بگاڙي رهيا آهن.جيڪو هاڻ نه ٿيڻ گهرجي.سنڌي ٻولي ۾ آيل اسمن کي بولي پنهنجي اثر آڻن کان پو ضمير ۾ تبديل ڪري رهي آهي.پروگرام ۾ فهميده حسين،تاج جويو، شازيه پتافي۽شبير ڪنڀار پڻ ڳالهايو


ننڍپڻ جي شادي ۽ ان جا نقصانات




ازل کان عبد تائين عورت کي مرد جي برابر جو دردجو حاصل آهي پر انهن جون سماجي ذميواريون الڳ ضرور آهن پر حقن جي لحاظ سان ٻئي برابر جا حقدار آهن، جئين قرآن مجيد ۾ سورت النساء ۾ آهي ته عورت مرد جو سينگار آهي مرد عورت جو اسين پاڪستان کي اسلامي رياست پڻ سڏيون ٿا اسلامي رياست جتي اسلام جا قانون هجن پر هتي ڪجهه ڳالهه ئي ٻي آهي جڏهن ته مرد لاءِ الڳ قانون عورت لاءِ الڳ، هتي جڏهن شادي جي حق جي ڳالهه ڪجي ته پاڪستان جو قانون ڇوڪري (مرد) 18 سالن ۾ اجازت ڏي ٿو ۽ ڇوڪري لاءِ عمر 16 سال آهي ڇا اهو قانون صحيح آهي؟ ڇا اهو قانون لاڳو به ٿئي ٿو يا نه؟
وڏي بدقسمتي سان چوڻو ٿو پوي ته پاڪستان ۾ ننڍي عمر جي شادي جي رسم عام آهي خاص طور تي سنڌ ۾ تمام ئي وڏي پيماني تي شاديون ننڍيون  عمر ۾ ٿين ٿيون پي ڊي ايڇ ايس  جي 2013 سروي مطابق 13 فيصد ڇوڪرين جي شادي 15 سالن کان به گهٽ عمر ٿيئ ٿي ۽ 40 سيڪڙو کان وڌيڪ ڇوڪرين جي شادي 16 سالن جي عمر ۾ ٿئي ٿي ۽ هڪ سال جي اندر ئي اها ڇوڪري ماءُ بڻجي وڃي ٿي اهڙي حالت ۾ جڏهن ان ڇوڪري جو پنهنجي توليدي نظام ئي نامڪمل هوندو ته ان جو ٻار ڪئين صحيح طريقي سان پيدا ٿيندو انهيءَ ڪري 60 فيصد کان وڌيڪ مائرن جي موت جو ڪارڻ ننڍي عمر جي شادي ٿئي ٿو. پاڪستان ۾ اهو نظام هر هنڌ عام آهي ته ننڍي عمر ۾ شادي ڪرائي وڃي ٿي جڏهن ته انهيءَ ۾ عورت کي ڪيترائي نقصان آهن.
ڇوڪرين کي هميشه تعليم پرائڻ کان روڪيو وڃي ٿو پر مشڪل ئي چند ڇوڪريون هونديون جنهن پرائمري تعليم تائين حاصل ڪئي هوندي اڄڪلهه جون نوجوان ڇوڪريون ڪافي مسئلن کي منهن ڏيئي رهيون آهن گهرن ۾ خوراڪ جي ڪمي، فيصله سازي کان پري رکڻ انهن جي رائي کي عمل نه ڏيڻ ننڍي عمر جي شادي غربت ۽ جهالت آهي ماڻهو عورت کي مال جيان خريدو فروخت ڪن ٿا ڪڏنهن ڪاروڪاري ڪڏهن سڱ چٽي ، عورتن سان هر لحاظ جي ناانصافي ۽ امتيازي سلوڪ آهي سنڌ ۾ جتي عورت کي ست قرآن بر ابر سمجهيو وڃي ٿو اتي ان معاشري ۾ عورت کي ستي ڪري قرآن سان شادي ڪرائي وڃي ٿي خاص ڪري سيد خاندان جون عورتون جنهن کي سيد گهراني جو رشتو نه ملندو آهي اهي پنهنجي نياڻين کي قرآن سان شادي ڪرائي پوري عمرانهن کي اڪيلائي جي آڙاهه ۾ وجهن ٿا ۽ زندگي جو ڄڻ هر حق کسي وٺن ٿا پوءِ اهڙي ماحول ۾ ڪجهه عورتون بيزار ٿي يا ته گهرن نڪرن ٿيون يا خودڪشي ڪري ڇڏين.
جڏهن ڳالهه ڪجي ننڍي عمر جي شادي جي ته حڪومت اهڙو قانون ڇو ٺاهيو آهي جنهن ۾ ڇوڪري کي 16 سالن ۾ پرڻائجي ، جڏهن 18 سالن کان اڳ ڪنهن به نوجوان کي ووٽ ڏيڻ جي قابل نٿو سمجهيو وڃي ته ان کي قانون شادي جي اجازت ڪيئن ٿو ڏي؟
ڇا گهر هلائڻ ووٽ ڏيڻ کان وڌيڪ آسان آهي؟
ڇا ٻار پيدا ڪرڻ ، انهن جي پرورش ڪرڻ ووٽ ڏيڻ کان وڌيڪ آسان آهي؟
ڇا هڪ پورو خاندان سنڀالڻ ان جون ذميواريون پوريون ڪرڻ ووٽ ڏيڻ کان وڌيڪ آسان آهي؟
آهي ڪنهن وث انهن سوالن جو جواب؟؟؟
موجوده حڪومت کي اهڙو قانون ٺاهڻ گهرجي ته ڇوڪرو ۽ ڇوڪري ٻنهي جي شادي جي عمر 18 سال قانونن جائز ڪئي وڃي  نه صرف ڪاغذي ڪاروائي تائين پر ان تي عمل پڻ ڪرايو وڃي اميد آهي ته هن حڪومت ۾ معصوم نياڻين جي زندگين کي بچائڻ لاءِ ڪجهه اقدامات ورتا ويندا. ننڍي عمر جي شادي جو رواج نه صرف ڳوٺن ۾ شهرن ۾ پڻ رائج آهي هڪ اهڙو مثال اسانجي پاڙي ۾ موجود آهي جتي 14 سالن جي ڇوڪري جي شادي 50 سال جي مرد سان ڪرائي وئي ۽ نتيجي ۾ هڪ سال اندر ان کي ٻار ٿيو ۽ اهو ٻار معزرو پيدا ٿيو ۽ عورت  ۾ خون جي ڪمي هجڻ سبب ويم کان پوءِ ڪجهه ڏينهن اندر موت ٿي وئي ان سان نه صرف ان ڇوڪري جي زندگي هميشه لاءِ وئي پر ۽ ٻار به معذور ٿيو جڏهن ته ڇوڪري اڃا پاڻ ٻار هئي ته اها هڪ تندرست ٻار کي ڪيئن جنم ڏيندي.
ننڍي عمر جي شادي نه صرف ڇوڪرين کي نقصان رسائي ٿي پر اگر ڪو ڇوڪرو به 18 سالن کان گهٽ عمر ۾ شادي ڪري ٿو ته ان سان به ناانصافي آهي ڇو ته هو ان عمر ۾ پاڻ اڃا نابالغ آهي ته ازدواجي ذميواريون ڪيئن پوريون ڪندو گهر واري ۽ ٻار ڪيئن سنڀاري سگهندو زندگي نه صرف ان واحد شخص جي تباهه ٿيندي پر پورو گهر وڃائجي ويندي ۽ روز پيا جهڙا ٿيندا ڪڏهن پاڻ تي تشدد ڪڏهن گهر واري تي آخر نتيجي ۾ يا ته هو گهران فرار ٿيو وڃي يا خودڪشي ڪري هن دنيا مان جان آجو ڪندواسان حڪومت کي مشورو ڏيندا سون ته اها هن سنگين مسئلي بابت ضرور ڪجهه ڪرڻ گهرجي…

ڇا ناري نازڪ آهي؟ سيتا ڊي داس





ڇا ناري نازڪ آهي؟

هن فوٽو ۾ هڪ ناري جيڪو گيس سلينڊر ۽ گھر جو سامان کڻي پهاڙ تان لهي پئي منهنجي خيال ۾ جهڙي تهڙي مرد کان بہ اهو ڪم ڪون ٿيندو جيڪو هن پهاڙي ڳوٺ جون ناريون روز ڪنديون آهن هو ڪاٺيون، اناج، گاه، گھر ٺاهيڻ جو ڪاٺ ڪاٻاڙو وغيره پنهنجي پٺن تي کڻي اينديون آهن ۽ حيرت جي ڳاله آهي تہ مرد هن کي صرف سامان کڻائيڻ ۾ مدد ڪندا آهن۔

پنهنجي جي سنڌ جي ڳوٺن جي ناري جي بہ ساڳي حالت آهي هو بہ پنهنجي مٿي تي فٽيون، ڪڻڪ، ساريون، توريو وغيره سڄو ڏينهن مٿي تي کڻي ڳڏ ڪنديون آهن ۽ شام جو 40 کان 50 ڪلو جيترو گاه 2 کان 3 ميل جي فاصلي کان کڻي گھر اينديون آهن مرد صرف ڪهاڙي کڻي آڳيان ٿي هلندو آهي۔
پوءُ بہ مرد جو خيال آهي تہ عورت نازڪ آهي۔ مان هن ڳاله تي حيران ٿي ويندي آهيان تہ ڪهڙي ڳاله ۾ عورت نازڪ آهي۔ جيڪو بہ ڪم مرد ڪري ٿو اهو سڀ ڪم عورت بہ ڪندي آهي۔ مثلاً: هارپو، مزدوري، آفيس ورڪ، ماستري، سرڪاري آفيسر، وزير اعظم، سائينسدان، فوجي، شڪار، F16 جيڪو جنگي جهاز آهي هن کي هلائيڻ وغيره وغيره ٻيو ڪهڙو ڪم آهي جنهن سان عورت ڪمزور نظر اچي ٿي؟
 سيتا ڊي داس

عورت ڌرتي جي اپسرا (حور)..... سيتا ڊي داس





عورت ڌرتي جي اپسرا (حور)

عورت ڌرتي جي سُندرتا ۽ ڌرتي کي سرڳ (جنت) بڻائيڻ واري اپسرا آهي۔ اي منهنجي ڪُک مان نڪتل منهنجا پيارا پُٽ هن اپسرا جو قدر ڪر، هن بي زبان معصوم جي عزت ڪر جيڪو ڀڳوان تنهنجي لائي هن ڌرتي تي موڪلي آهي۔ جيڪو هن ڌرتي تي تنهنجي لائي سڀ کان وڏو قيمتي تحفو آهي۔ هن کي پيار ڏي، هن جي دعا وٺ۔ هي جيڪو تو کي خوشي ڏي ٿي هن جي بدلي ۾ تو هن کي خوشي ڏي تہ تري ويندي، بچي ويندي ۽ ڀڳوان جي پيارن پٽ ۾ شامل ٿي ويندي جنهن لائي سرڳ جا دروازا هميشه لائي کليل آهن۔
 سيتا ڊي داس